Add To collaction

لیکھنی ناول -17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر6

💔💔 یہ اداس اداس سا پھرنا، یہ کسی سے نہ ملنا یوں بے سبب نہیں، کچھ تو سانحہ ہوا ہے💔💔 گاڑھی ایک بنگلے کے سامنے رکی اور نور کی سوچوں کا تسلسل توڑا وارث باہر نکالا خاں بابا گاڑھی سے سامان نکالے اور میرے روم میں رکے دے وارث نے گھر کے ملازم سے کہا جی شاہ صاحب خاں بابا نے کہا اس ہی وقت نور گاڑھی سے باہر آئ ایک نظر گھر کو دیکھا جو باہر سے بہت خوبصوت تھا چلے وارث نے نور کو کہا جو گھر کو گھورنے میں مصروف تھی وہ دونوں لان میں ائے تو بلال ان کو ملا بلال نے نور سے کہا welcome Home نور بلال کو دیکھا کر دل سے خوش ہوئی اور یہ خوش وہ سمجھنے سے قاصر تھی شکریہ بھائ نور نے کہا وہ اب گھر کے اندر تھے نور یہ میرے ماما اور پاپا ہے وارث نے دعا بیگم اور احد صاحب کو دیکھا کر کہا اسلام و علیکم نور نے ان سے اسلام لی احد صاحب نے نور کے سر پر ھاتھ رکھا اور دعا بیگم نے اس کو گلے سے لگیا اور اسلام کا جواب دیا جبکہ حریم اور احمد چپ اپنے آنسو پیتے اپنی ڈول کو دیکھا رہے اور یہ میرے ماما پاپا اب بلال بولا نور نے ان سے بھی اسلام لیا دونوں نے نور کو گلے سے لگیا اور نور پریشان ہو گئی یہ لمس کنتا آپنا تھا بلکل اپنے بابا ماں جیسا اب سین یہ تھا کہ نور اور دعا بیگم اور حریم ایک صوفہ پر تھی اور ان کے سامنے وارث اور بلال بیٹھ تھے اور سائیڈ والے صوفہ پر احد صاحب اور احمد بیٹھے تھے نور سے حریم اور دعا باتے کر رہی تھی اور نور ان کی باتوں کا جواب دے رہی تھی نور آپ کے بابا کا سن کر افسوس ہوا احد صاحب نے کہا ان کی بات پر نور کے چہرہ پر ایک رنگ گزرا تھا اس رنگ کو سب نے محصوص کیا جی بس اللہ کا حکم نور کی آواز میں درد تھا نور آپ کو یہ چوٹ کیسے لگئی حریم نے فکر سے پوچھا اس کی بات پر وارث نے نور اور نور نے وارث کی طرف دیکھا دونوں کی نظریں ملی چھوٹی ماں یہ گر گئی تھی وارث نے جلدی سے کہا اور نور چپ ہی رہی اب نور کی برداشت جواب دے رہی تھی ایک تو وہ ساری رات روتی رہی اور دوسرا. سر میں درد ہو رہا تھا اپر سے ان کی باتے ختم نہیں ہو رہی تھی اور وہ کچھ عجیب محسوس کر رہی تھی اس گھر میں کچھ ایسا جو اس کی سمجھ میں نہیں ارہا تھا اب گھنٹا ہو رہی تھی اس ماحول سے ، اور اس کی یہ بات وارث اور بلال نوٹ کر رہے تھے آنٹی مجھے نماز پڑھنی ہے نور نے بہانہ بنیا نور نے حریم سے کہا پہلی بارا اس نے حریم کو مخاطب کیا تھا اور حریم اس کے منہ سے آنٹی لفظ سن کر اس کے دل میں کچھ ہو حریم کا بس نہیں چل رہا تھا وہ نور سے کہتی میں تمہاری ماما ہو لیکن اپنے پر قابو پایا چلو حریم نے کہا اور نور کو لیے کر چلی گئی شاہ کیا سوچ رہا ہے بلال نے پوچھا کچھ نہیں یار وارث نے کہا ایک بات میں نے نوٹ کی ہے بلال نے مصنوئ سنجیدگئ سے کہا کیا وارث نے پوچھا تم میری بہن کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے بلال نے مصنوئ غصہ سے کہا اس کی بات پر وارث نے بلال کو گھورا کمینا انسان میری بیوی ہے وہ شاہ نے کہا اور بلال نے قہقہا لگایا اور شاہ بھی مسکرایا


حریم نور کو وارث کے روم میں لائی یہ آپ کا روم ہے آپ نماز پڑھ لو بیٹا حریم نے کہا اور نور پریشان سی وضو کرنے چلی تھی جب حریم نے رکا نور میں جانتی ہو یہ سب آپ کے لیے مشکل ہے لیکن کوشش کرو بس اسان ہو جائے گا وارث آپ کو خوش رکھے تھا حریم نے کہا اور نور کے سر پر بوسہ دیے اور چلی گئی آخر ماں تھی وہ اپنی بچی کی پریشانی محصوص کر سکتی تھی اور نور پریشان سی اس کی بات پر غور کرنے لگئی آنٹی کو کیسے پتا میں پریشان ہو نور نے سوچا یہ لوگ کچھ عجیب ہے کچھ اپنے اپنے سے لگتا میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہو اللہ مجھے صبر دے اور اس گھر میں رہنے کا حوصلہ بھی نور نے خود سے کہا اور نماز ادا کی ابھی وہ فارغ ہوئی تھی پھر ایک نظر اس روم کو دیکھا کو کے حوبصورت تھا ہر چیز قمیتی تھی ایک چیز اس روم کی نور کو پسند ائی وہ تھی بلکنی جس سے آسمان نظر آتا تھا اور گھر کا لان بھی اس ہی وقت روم کا درواذ کھولا اور ایک وجود اندر ایا اسلام و علیکم بھابھی میں حنسں آپ کا دیور اس کے اندز پر نور مسکرائ وہ سکول کے یونیفارم میں تھا اور حنسں کو اسلام کا جواب دیا بھابھی آپ جانتی نہیں ہے میں کب سے آپ کا صبری سے انتظارا کر رہا تھا حنسں نے کہا کب سے نور نے پوچھا بچپن سے حنسں نے کہا کیا مطلب نور نے پوچھا شاہ بھائ وہ بلال بھائ آپس میں دوست ہے اور میرا گھر میں کوئی دوست نہیں ہے آپ میری دوست بنیے گئی حنسں نے پوچھا. اور اس کی مصعومت پر نور کو پیار ایا ہاں نور نے کہا اور اس کے سر پر ھاتھ رکھا اور حنسں نے یاہو کا نعرہ لگیا اور نور مسکرائ اس ہی وقت شاہ اندر ایا نور کو مسکراتے دیکھ کر کچھ سکون ہوا حنسں بچے آپ کچھ کہا تھا وارث نے کہا اووو بھائ میں بھول گیا حنسں نے سر پر ھاتھ مار بھابھی نیچے سب کھانے پر آپ کا انتظارا کر رہے ہے آپ جاو میں کپڑے بدل کر آتا ہو حنسں نے کہا اور چلا گیا اس کی بات سن کر نور پریشان ہو گئی یعنی پھر سب کا سامنا کرنا ہو گا اس ہی وقت وارث وشروم سے باہر آیا
کیا نیچے جانا ضروری ہے نور نے وارث سے پوچھا ہاں کیوں کوئی مسلہ ہے وارث نے پوچھا جی یہاں کچھ عجیب ہے نور نے کہا اور وارث اس کی بات پر مسکرایا اور کوئی جواب نہیں دیا چلے وارث نے کہا نور نےگہرا سانس لیا اور نیچے آئ


۔ٹیبل پر سب نور کا انتظارا کر رہے تھے نور بیٹھی اور سب نے کھانا شروع کیا نور پریشان ہوئی اور اب سر چکرا سب اس کی پسند کا کھانا تھا حریم نے وہ سب بنایا تھا جب وہ ماں بننے والی تھی اور یہ کھانے سب سے زیادہ کھاتی تھی نور شروع کرو حریم نے کہا نور نے بریانی لی ابھی ایک چمچہ ہی لیا تھا اور نفی میں سر ہلایا اور اوپر کی طرف بھاگی اس کے ری ایکشن پر سب پریشان ہوئی وہ سیرھوں سے گرتا ہوے دو بارا بچی تھی اور بلال اور احمد وارث بھاگ تھا آپ لوگ باہر رہے میں دیکھتا ہو وارث نے کہا اور روم میں گیا


کسی کو کانٹے چوبھے ، کسی کو پھولوں نے مار ڈالا جو دونوں سے بچ گئے اس کو اصولوں نے مار ڈالا شاہ اندر ایا تو نور بیڈ پر بیٹھی تھی نور کیا ہوا ہے نور وارث کو دیکھا کر اس کے پاس آئ مسٹر آفیسر مجھے یہاں نہیں رہنا مجھے میرے گھر واپس جانا ہے مجھے میں بابا کے پاس جانا ہے نور نے جلدی سے کہا شاہ کو وہ ٹھیک نہیں لگئی نور اوکے ری یلکس شاہ نے اس کا ہاتھ پکرا جو کے انتی سردی میں گرم تھا اووو نور تمہیں تو بخار ہے شاہ پریشان ہوا میری بات سننے وہ آنٹی وہ انکل انتے عجیب ہے مجھے یہاں کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے نور نے گہرا سانس لیتے ہوے کہا اس کا سانس خراب ہونے لگا اور نور نور کیا ہوا ہے شاہ پریشان ہوا نور کا سانس اٹک اٹک کے ارہا تھا جلدی سے شاہ نے اس کو مصنوئ سانس دی یا کچھ دیر تک اس کا سانس ٹھیک ہوا لیکن اب وہ بے ہوش ہو چوکی تھی اووو شٹ نور نور شاہ اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتا رہا بلال بلال اب شاہ نے بلال کو آواز دی بلال جو روم سے باہر موجود تھا وارث کی آواز سن کر پریشان سا اندر ایا بلال ڈاکٹر کو فون کرو جلدی شاہ نے نور کو بیڈ پر لیٹے ہوے کہا نور کیا ہوا ہے اس کو بلال اس کو بے ہوش دیکھ کر گھبرایا کچھ دیر تک ڈاکٹر ایا سب لوگ وارث کے روم میں موجود تھے مسٹر وارث میں نے پہلے ہی کہا تھا ان کے سر پر گہری چوٹ ائی ہے یہ مسلسل کیسی چیز کی پریشانی لے رہی ہے اور مجھے لگتا ہے انہوں نے کچھ دن سے ٹھیک سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے بی پی لو ہے ان کو میں نے سکون کا انجکیشن دیا ہے جتنا سوے گئی ان کے لیے بہت ہے اور بخار اگر تیز ہو جائے تو ٹھڈے پانی کی پٹیا کرے گا ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد کہا اور چلا گیا آپ لوگ میرے ساتھ ائے وارث نے سب کو کہا اور حریم تو رو رہی تھی حنسں بچے آپ اپنی بھابھی کے پاس رہے میں آتا ہو وارث نے حنسں سے کہا جی بھائ حنسں نے کہا اور ایک نظر اپنی بھابھی کو دیکھا جو ابھی ابھی اس کی نئی دوست بنی تھی نور کو کیا ہوا ہے شاہ یہ کسی چیز کی پریشانی لے رہی ہے احمد نے پوچھا چھوٹے پاپا یار اس کے بابا دو دن پہلے فوت ہوے ہے بس وہ یہ سب قبول نہیں کرپا رہی ہے وارث نے کہا چھوٹی ماں پلیز رورے نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا مجھے پر بھروسہ رکھ وارث نے کہا شاہ ہم اس کو یہ کیوں نہیں بتاتا ہے ہم اس کی فمیلی ہے احمد نے کہا کیونکہ وہ اپنی فمیلی سے نفرت کرتی ہے وہ ہم سے دور چلی جائے گئی بلال نے آخر سچ بتایا کیا مطلب احمد نے کہا بابا بس ابھی نہیں پھر کبھی بلال نے احمد سے کہا ٹھیک ہے آپ جاو میں نور کے پاس ہو شاہ نے بات ختم کی وہ اور بلال نہیں چاہتے تھے کہ گھر میں کیسی کو پتا چلے کہ نور اپنے ماں باپ کے بارے میں کیا سوچتی ہے اور وہ ہڑٹ ہوے سب کے جانے کے بعد بلال وارث کے پاس ایا اب بتا ہوا کیا تھا بلال نے پوچھا تو شاہ نے ساری بات بتائی بلال مجھے لگتا ہے میں نے جلدی کی ہے ایک انسان کی زندگی میں اچانک اتنا سب ہو جائے گا تو وہ پاگل ہی ہو گا مجھے ابھی نور کو گھر نہیں لانا چاہے تھا وارث نے کہا بات تیری ٹھیک ہے لیکن پریشان نہیں ہو اللہ بہتر کرے گا بلال نے کہا اس کی بات پر شاہ نے سر ہلایا


رات کے کیسی وقت وارث کی آنکھیں کھولی ایسا محصوص ہوا کہ کوئی آواز دے رہا ہے بیڈ کی ایک سائیڈ پر نظر گئی تو نور نیند میں بول رہی تھی شاہ اس کے پاس ایا اور سننے کی کوشش کی بابا ماں بابا نور بول رہی تھی نور میری جان میں یہاں ہے شاہ نے اس کا ہاتھ پکرا وہ خود نہیں جانتا تھا کہ کیا بول رہا ہے وارث نے ماتھے کو چھو تو وہ گرم تھا لگتا ہے بخار تیز ہو گیا ہے وارث جلدی سے نیچے ایا فریج سے پانی نکالا نور کو پیٹیا کی ٹھیڈے پانی کی نور کو کچھ منٹ کے لیے ہوش ایا تھا وہ وارث کو دیکھتی رہی لیکن پھر نیند کی وادی میں چلی گئی


صبح نور کی آنکھیں کھولی تو وارث کو بیٹھ بیٹھ سوتے دیکھا کر شرمندہ ہوئی اس کو دیا ایا رات میں کیسے اس کی تیبماردی کر رہا تھا پھر یاد ایا کہ کل وارث کے گھر والوں کے بارے میں کتنی بکوس کی تھی وہ اور بھی شرمندہ ہوئی...

   0
0 Comments